
کب تک؟ کب تک آپ اپنی جوانی کے قیمتی لمحے کسی بینک بیلنس کے پیچھے دوڑانے میں گزار دیں گی؟
کیا آپ کی عمر کا ہر سال صرف اس انتظار میں گزر رہا ہے کہ کوئی پیسے والا لڑکا آپ کے گھر والوں کی شرطوں پر اتر جائے؟
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جس خوشحال مستقبل کے لیے آپ اپنی مرضیوں کو کچل رہی ہیں، وہ دراصل کسی اور کی خوشحالی کی گارنٹی ہے؟ کیا آپ کے خواب، آپ کی صلاحیتیں، آپ کی شناخت… سب کچھ ایک مالدار بوائے فرینڈ کی تلاش میں داؤ پر لگ گئے ہیں؟
اور اگر یہ تلاش کبھی پوری نہ ہوئی، تو کیا آپ کو اپنی زندگی کا یہ حصہ ضائع لگے گا؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہمارے گھروں کی دیواروں سے ٹکراتے ہیں، لیکن ہم انہیں سننے سے کتراتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو اکثر یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ان کی کامیابی کا پیمانہ صرف اور صرف ایک اچھا رشتہ ہے۔ مگر یہاں اچھے کی تعریف میں اکثر دولت، گاڑی، بنگلہ، اور بیرون ملک بستے سسرال والے شامل ہوتے ہیں۔
کہانی ایک نہیں، ہزاروں ہیں:
ذرا اپنے اردگرد دیکھیں: وہ لڑکی جو میڈیکل کی ڈگری صرف اس لیے کر رہی تھی کہ امیر گھرانے میں رشتہ آسان ہو جائے۔ وہ بچی جو ڈانس اور شاعری چھوڑ بیٹھی کیونکہ سسرال والے پسند نہیں کریں گے۔ وہ خاتون جو 35 کی ہو کر بھی اپنی مرضی کی شادی نہیں کر پاتی، کیونکہ اب تو صرف طلاق یافتہ یا بوڑھے ہی رشتے آتے ہیں۔ یہ کوئی فلمی کہانیاں نہیں، یہ آپ کے اپنے محلے، اپنے رشتے داروں، بلکہ شاید آپ کی اپنی کہانی ہے۔
ڈریم بوائے فرینڈ کا Illusion:
ہماری فلمیں، ڈرامے، حتیٰ کہ گھر کی بزرگ خواتین تک یہ رٹ لگاتی ہیں کہ عورت کی تکمیل شادی میں ہے، مگر کیا کبھی کسی نے بتایا کہ شادی کی تکمیل عورت کے اپنے خوابوں میں ہے؟ مالدار بوائے فرینڈ کی تلاش میں ہم خود کو ایک ایسے پنجرے میں بند کر لیتے ہیں جہاں ہماری اُڑان کی شرط صرف دولت ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ پنجرے کا دروازہ کھلا ہے، مگر ہم نے اُڑنا چھوڑ دیا ہے۔
حقیقت کا ایک اور رخ:
ایک لمحے کو تصور کریں: اگر آپ نے وہ مالدار لڑکا بھی پا لیا، تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کی ذات، آپ کی سوچ، آپ کے جذبات کو خریداری کے بعد بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے گا؟ پاکستانی اپر کلاس فیملیز میں بیٹھ کر دیکھ لیں: کتنے امیر گھرانے ایسے ہیں جہاں بہو کو گھر کی سجاوٹ کا ایک ٹکڑا سمجھا جاتا ہے؟ جہاں اس کے فیصلوں، خوابوں، اور آزادی پر ہم نے تمہیں خریدا ہے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے؟
عمر کا حساب کتاب:
سب سے خطرناک کھیل یہ ہے کہ ہم وقت کو ہی داوٗ پر لگا دیتے ہیں۔ 25 کی ہوئیں، تو گھر والوں کو فکر ہوتی ہے کہ ابھی تک کیوں نہیں بیاہی؟۔ 30 پر پہنچیں، تو رشتے دار کہتے ہیں: اب جو ملے، اسے ہی پکڑ لو۔ 40 تک پہنچیں تو معاشرہ آپ کو ختم شدہ پروڈکٹ سمجھنے لگتا ہے۔ مگر کیا کبھی کسی نے آپ سے پوچھا: تمہاری اپنی خوشی کہاں گم ہو گئی؟
خود کو پہچانیں!
آپ کی زندگی کا مقصد کسی کی بینک سٹیٹمنٹ نہیں، بلکہ آپ کا اپنا سٹیٹمنٹ آف ایکسیسٹنس ہے۔ اگر آپ کو پینٹنگ پسند ہے تو کینوس اٹھائیں، اگر کاروبار کرنا چاہتی ہیں تو کوچنگ سنٹر کھولیں، اگر محبت کرنی ہے تو اُس سے کریں جو آپ کے دل کی دھڑکن بن سکے۔ یاد رکھیں: دولت سے گھر سجتے ہیں، مگر پیار سے گھر بستے ہیں۔ اور ہاں… عمر صرف ایک عدد ہے، ضائع وہی ہوتی ہے جو آپ خود کو جینے نہ دیں۔ سوچیں گے؟ یا پھر مالدار بوائے فرینڈ کے چکر میں ایک اور سال گنوا بیٹھیں گی؟